فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

اصالت وجود

چهارشنبه, ۱۰ ژانویه ۲۰۱۸، ۰۱:۱۴ ق.ظ


حکمت متعالیہ کا اساسی اور بنیادی ترین مسئلہ #اصالت_وجود کی مختصر وضاحت : 


اگر ہم حکمت متعالیہ کی ایک امتیازی خصوصیت کے عنوان سے ملاصدرا کے " اصالت وجود اور ماہیت کے اعتباری(ذھنی)  ہونے کے نظریے کا ان کے فلسفے میں کردار بہتر انداز میں درک کرنا چاہیں ، تو ہمیں اس بات کی طرف توجہ کرنا پڑے گی کہ ملاصدرا سے پہلے کے موجود فکری نظاموں کی بنیادی ترین مشکل " ذھنی امور اور خارجی واقعیات" کو آپس میں مخلوط کرنا ہے 

چونکہ جیساکہ ہم نظریہ اصالت وجود میں دیکھیں گے ، مفاہیم اور ماھیات، خارجی حقائق کی واضح اور شفاف تصویریں ہیں اور صاحب تصویر کی ہر طرح سے شبیہ ہیں اسی وجہ سے انسان اس (تصویر) کو صاحب تصویر کے ساتھ مغالطہ کر بیٹھتا ہے ، تصویر کو صاحب تصویر سمجھ بیٹھتا ہے اور صاحب تصویر کے احکام اور خصوصیات کو غلط طور پر تصویر(ماھیت) کے ساتھ منسوب کر دیتا ہے ۔ 

فرض کریں آپ کے مدمقابل کسی ایسے شخص کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو پوری مہارت کے ساتھ " جمناسٹیک" کرتے ہوئے مخلتف حرکات انجام دے رہا ہو اور آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کھیل کو سیکھنے کیلئے اس کی راہنمائی سے استفادہ کریں ، اسی جوہ سے آپ اس کی طرف بڑھتے ہیں لیکن ایک دم آپ ایک اسیے " آئینہ " سے روبرو ہوتے ہیں کہ جو بلکل شفاف اور پوری دیوارپر محیط ہے اور آپ جان جاتے ہیں کہ اب تک جو منظر آپ مشاہدہ کر رہے تھے در حقیقت وہ تصویر تھی نہ اصلی حقیقت ، لیکن یہ تصویر اپنے صاھب تصویر کی اس حد تک ہو بہو شبیہ تھی کہ آپ نے اس تصویر ہی کو غلط طور پر صاحب تصویر فرض کر لیا اور گمان کرنے لگے کہ یہ وہی حقیقت ہے ، خو وہی وجود ہے کہ جو جسم ، شعور اور مہارت کا حامل ہے ۔ بالکل واضح ہے کہ اگر آپ حرکت نہ کرتے اور آئینہ سے روبرو نہ ہوتے تو اسی غلط فہمی کا شکار رہتے اور یہی عقیدہ رکھتے کہ حقیقت وہی ہے جس کو دیکھ رہے ہیں ، تصویر اور صاحب تصویر والا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے ۔ 


یہاں بھی یہی ہے ، چونکہ مفاہیم ، مخصوصا ماھیات ایسی شفاف تصاویر ہیں جو ان حقائق کے عین مطابق ہیں اور چونکہ عام انسان ان خارجی حقائق کو انہی مفاھیم اور ماھیات کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان حقائق کو کبھی بھی ان تصاویر کے بغیر نہیں دیکھ پاتا(تو لہذا) سمجھ بیٹھتا ہے کہ ماھیات یہی خارجی واقعیات ہیں اور اسی نظریہ کے تحت بعض اوقات ان ماھیات کے احکام کو کہ جو در حقیقت وہی ذھنی تصاویر ہیں ان حقائق کی جانب کہ جو ان تصاویر کی حامل ہیں (صاحبان تصویر) سے منسوب کر دیتا ہے اور بعض اوقات تو اس کے برعکس یعنی ان خارجی حقائق کے احکام کو ان ذھنی تصاویر کہ و ماھیات ہیں کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے ۔ 


ماھیات (مثلا انسان ، درخت ، دیوار وغیرہ )، مفاھیم کی سنخ سے ہیں اور ان کا کردار تصویر اور حکایت گری کے علاوہ کچھ نہیں اور ان کی جگہ صرف ذھن ہے ، یہ ممکن ہی نہیں کہ ماھیات خارجی دنیا میں پائی جائیں تا کہ ان پر واقعیات کے احکامات صادق ہو سکیں ۔ 


(پہلے والے فلسفی نظاموں مثلا فلسفہ مشا میں ماھیت اور وجود کے مسائل میں تفکیک و جدائی نہیں پائی جاتی تھی لیکن حکمت متعالیہ میں اس کی طرف کافی توجہ ہے اور اسی تفکیک اور جدائی پر فلسفہ ملاصدرا قائم ہے   )



یادآوری


وجود کے اصیل ہونے اور ماہیت کے اعتباری (ذھنی) ہونے کے بارے میں تفصیل جاننے کے لیے بدایہ الحکمہ کے دروس کی طرف رجوع کریں ۔ دروس مندرجہ ذیل سایٹ میں موجود ہیں : 


Syedzair.blog.ir

____________________________________________________________

یہ مطالب استاد عبد الرسول عبودیت کی کتاب کا ترجمہ ہے 


مترجم : سید میثم ہمدانی 



موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۸/۰۱/۱۰
syedzair abbas

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی