فلسفه کی ابجد 4
تعریف_فلسفہ
فلسفہ حقیقت میں یونانی کلمہ ہے جس کا مطلب علم دوستی ہے غالبا فیثا غورث پہلا متفکر تھا جس نے سوفیسٹ یعنی دانشمند کہلانے والے افراد کے مقابلے میں تواضع کا اظہار کرتے ہوئے اپنے لیے لفظ فیلسوف [علم دوست]کو استعمال کیا۔ البتہ بعض کا خیال یہ ہے کہ پہلی دفعہ سقراط نے استعمال کیا۔ بعد میں آہستہ آہستہ یہ کلمہ بعض یونانی دانشمندوں جیسے سقراط،افلاطون اور ارسطو کی طرف سے علم و دانش کے ایک مجموعے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
[ محمد عبد الرحمن مرحبا، من الفلسفۃ الیونانیۃ الی الفلسفۃ الاسلامیۃ ، ص ۲۹]
فلسفہ کی ایک مشہورو معروف تقسیم ،جس کو ارسطو کی طرف نسبت دی جاتی ہے البتہ بعد میں مسلمان دانشوروں نے بھی اس تقسیم سے فائدہ اٹھایا
،[ابن سینا، الھیات دانش نامہ علائی ص ۲]
و[ خواجہ نصیر الدین طوسی ، اخلاق ناصری ، ص ۳۸] کے مطابق فلسفی مسائل دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں فلسفہ نظری اور فلسفہ عملی۔
فلسفہ نظری پھر تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ الھیات،ریاضیات اور طبیعیات اسی طرح فلسفہ عملی بھی تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جیسے اخلاق، تدبیر منزل اور سیاست مدُن۔
اس تقسیم پر اگر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اس زمانے میں رائج بیشتر علوم کو فلسفہ کے ذیل میں ہی پڑھا جاتا تھا لیکن آجکل تمام علوم مستقل ہو گئے ہیں اور صرف الھیات کو فلسفہ کے تحت پڑھا جاتا ہے البتہ بعض مغربی مفکرین منطق، معرفت شناسی اور اخلاق کو فلسفہ کا حصہ ہی شمار کرتے ہیں
۔[Donald M. Borchert” ed” ,Encyclopedia of philosophy v. 7, p 325]
شاید اسی گستردگی اور علوم کے تنوع کی وجہ سے فلسفیوں نے فلسفہ کی تعریف کے ضمن میں ایک کلی تعبیر استعمال کی اور کہا کہ" اشیاء کی حقیقت کی پہچان اور شناخت فلسفہ کہلاتی ہے"
[یعقوب بن اسحاق الکندی، رسائل الکندی الفلسفیۃ، ج ۱، ص ۲۵]
اور بعض اوقات فلسفہ کی غایت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ" فلسفہ پڑھنے کے بعد انسان ایک عقلی جہان میں تبدیل ہو جاتا ہے جیسے ایک جہان خارج ہے"۔
[محمد باقر میر داماد، القبسات،ص ۳۹۴ ؛
و ملا ھادی السبزواری،شرح المنظومۃ ج ۲، ص ۵۰ ]
البتہ آجکل مختلف فلسفی مکاتب کے درمیان بہت زیادہ تفاوت کی وجہ سے فلسفہ کی ایک تعریف کرنا یا تو ناممکن یا مشکل گردانتے ہیں ۔
تحریر: آقای سجاد منتظری