فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

۱۷ مطلب در ژانویه ۲۰۱۸ ثبت شده است

حکمت متعالیہ کا اساسی اور بنیادی ترین مسئلہ: 


حکمت متعالیه (ملاصدرا کا فلسفہ) کی فلسفہ مشاء اور اشراقی فلسفے کے مقابلے میں امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس فکری نظام میں " وجود کے اصل ہونے اور ماہیت کے اعتباری(ذھنی) ہونے" کے مسئلے کو بیان کیا گیا ہے اور اسی مسئلہ کو بنیاد بنا کر بہت سے فلسفی مسائل میں پیش آنے والی مشکلات کو حل کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ انسان کی تمام خصوصیات اس کے " نفس ناطقہ(فکر و تعقل کرنے والا) سے اخذ کی گئی ہیں کہ جو اس کو دیگر تمام حیوانات سے ممتاز (جدا) کرتی ہے اسی طرح حکمت متعالیہ کی تمام خصوصیت "اصالت وجود اور اعتباریت ماہیت" کے مسئلہ کو بیان کرنے اور اس مسئلہ کو فلسفہ کے مختلف ابواب میں استعمال کرنے سے اخذ کی گئی ہیں ۔ یہ مسئلہ ایک ایسی "شاہ کلید"(ایسی چابی جس سے تمام تالے کھول جاتے ہیں ) کی طرح ہے جس کے ذریعے صدر المتالھین نے بہت سے نہ کھلنے والے فلسفی تالوں کو کھولا اور اسی کی مدد سے بہت سے میدانوں میں کامیابی حاصل کی ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۰ ژانویه ۱۸ ، ۰۱:۱۰
syedzair abbas


حکمت_متعالیہ_کی_امتیازی_خصوصیت


عارف, شہود کا مالک ہے اور فلسفی فکر اور ذھنی مفاہیم کا مالک


عارف نے جو شہود کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں بتاتا ہے اور فلسفی نے جو سمجھا ہوتا ہے اس سے خبر دیتا ہے 


وہ فلسفہ جو فقط برھان پر اعتماد کرتا ہے وہ عرفانی حقائق کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ فقط مفاہیم میں بحث کرتا ہے 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۰ ژانویه ۱۸ ، ۰۱:۰۸
syedzair abbas

فلسفی مکاتب 


فلسفہ کی تقسیم دو طرح سے کی جا سکتی ہے : 


1. روش کے اعتبار سے 


2 . موضوع کے اعتبار سے 


1.  روش کے اعتبار سے تین مکاتب فکر(school of thoughts) میں تقسیم ہوتا ہے :


مشائی_فلسفہ :


اس روش کے پیروکار فقط مفاہیم اور برھانی استدلال کے ذریعہ جہان کی شناخت حاصل کرتے ہیں 


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۰ ژانویه ۱۸ ، ۰۱:۰۱
syedzair abbas

تعریف_فلسفہ


فلسفہ حقیقت میں یونانی کلمہ ہے جس کا مطلب علم دوستی ہے غالبا فیثا غورث پہلا متفکر تھا جس نے سوفیسٹ  یعنی دانشمند کہلانے والے افراد کے مقابلے میں تواضع کا اظہار کرتے ہوئے  اپنے لیے لفظ   فیلسوف [علم دوست]کو استعمال کیا۔ البتہ بعض کا خیال یہ ہے کہ پہلی دفعہ سقراط نے استعمال کیا۔ بعد میں آہستہ آہستہ یہ کلمہ  بعض یونانی  دانشمندوں جیسے سقراط،افلاطون اور ارسطو  کی طرف سے  علم و دانش  کے ایک مجموعے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۰ ژانویه ۱۸ ، ۰۰:۵۵
syedzair abbas

مترجم : سید سبطین امروہوی 


فلسفه کا موضوع


الف) موجود خاص اور اس کے قوانین


ہر موجود پر  مختلف پہلوں کی وجہ سے مختلف قوانین  حاکم ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کسی خاص علم سے متعلق ہے  اور اسی علم میں اس کی تحقیق کی جاتی ہے؛ مثلاََ:  انسان کو لیجیے۔ قانون درج ذیل: 


‌أ.  انسان  اپنے اردگرد کی فضا کے مطابق  حرارت کو بدل لیتا ہے  اور بالاخر اس میں اور اس کے ارگرد کی فضا میں ایک  تعادل حرارتی قائم ہو جاتا ہے۔ 

یہ انسان پر اس جہت سے کہ وہ حرارت رکھتا ہے ، نظر ڈالتا ہے  اور علم تھرموڈینامک(Thermodynamics) سے مربوط ہے۔  یہ بات روشن ہے کہ اگر انسان جسمانی (مخلوق) نہ ہوتا یا جسمانی ہوتا لیکن اس کا جسم  بنا کسی حرارت  یا  ٹھنڈا ہونے  کے رہ پاتا، تو وہ اس قانون میں شامل نہ ہوتا۔ جس جگہ بھی کوئی حرارت پائی جائے گی قانون تبادل و تعادل حرارت بھی اس جگہ صادق آئے گا  (لیکن اس کے علاوہ) صادق نہیں آئے گا۔  پس دقیق تر یہ ہے کہ  بطور کلی اس قانون کا موضوع حرارت کو قرار دیں  نہ انسان ، ہوا اور دوسری اشیاء کو ۔  لہذا ہمیں (أ) کی جگہ کہنا چاہیے: 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ ۰۱ ژانویه ۱۸ ، ۰۲:۰۰
syedzair abbas

مترجم: سید سبطین امروہوی


علم (دانش) کا موضوع

اگر کسی مخصوص علم  جیسے ہندسہ(جمیٹری) کےمختلف  مسائل  کا ایک دوسرے کے ساتھ مقائسہ کیا جائے  اور پھر اس کے بعد ان مسائل  کا  کسی دوسرے علم  جیسے طب، کے ساتھ مقائسہ کریں ، تو ہم ہندسے (جمیڑی ) کے مسائل میں مشابہت دیکھیں گے ، جو کہ ہندسے کے بیانات(مسائل) اور  طب کے بیانات(مسائل) میں نہیں  دیکھی جا سکتی۔ اس مشابہت کی علت کیا ہے؟  ذرا سی جستجو و توجہ سے یہ بات معلوم ہو جائے گا کہ  اس کی علت یہ ہے کہ  ہندسے (جمیڑی ) کے مسائل  خط، سطح  ، حجم   اور   زاویے کی انواع کے خواص سے بحث کرتے ہیں، جو سب کے سب کمیت (Quantity)سے پیوستہ ہیں۔ برخلاف مسائل طب، کہ ان میں سے کوئی ایک بھی  کمیت(Quantity)  کے  خواص سے پیوستہ ہو کر بحث نہیں کرتا ،  پس کمیت (Quantity)ایک ایسا پیوند ہے جو ہندسی (جمیڑی)بیانات (مسائل)کے درمیان  ایک دوسرے کے لیے موجب قرابت ہے اور انہیں دوسرے علوم کے بیانات (مسائل) سے  الگ کرتا ہے  اور اسے ایک علم واحد کے قالب میں جس کا نام ہندسہ (جمیڑی ) ہے لے آتا ہے۔  اس طرح ہر دوسرا حقیقی علم بھی کوئی نہ کوئی موضوع رکھتا ہے  کہ  ان میں سے ہر ایک  اس موضوع سے متعلق خاصیتی بیانات یا  اس کی انواع میں سے  کسی ایک کی  خاصیت  کو بیان کرتا ہے۔ یہیں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر علم کا موضوع  اس علم پر کیا اثر چھوڑتا ہے۔ 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ ۰۱ ژانویه ۱۸ ، ۰۱:۵۵
syedzair abbas

فلسفے_کی_قلمرو_کی_وسعت


مترجم: سید سبطین امروہوی


 فلسفے کی قلمرو  کی وسعت کو درک  کرنے کے لیے  ، بہتر ہے کہ ہم درجِ ذیل  فلسفی سوالات کی جانب توجہ کریں:


کیا ذہن  سے خارج میں کوئی واقعیت ہے؟  اگر ہے تو کیا یہ واقعیت  شناختی ہے؟  اگر ہاں! تو پھر یہ شناخت کس چڑیا کا نام ہے؟ 


 کیا کوئی جوہر بنام جسم وجود رکھتا ہے  یا فقط اعراض جسمانی، از قبیل رنگ و شکل و حرارت اور ان ہی کی مانند دوسری، وجود رکھتی ہیں؟


  اگر ایسا کوئی جوہروجود رکھتا ہے تو کیا وہ مرکب ہے یا بسیط؟  اور اگر مرکب ہے  تو اس کے بسیط ترین اجراء کون سے ہیں؟ 


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ ۰۱ ژانویه ۱۸ ، ۰۱:۱۵
syedzair abbas