فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفی کتب کا تعارف 6

چهارشنبه, ۳۱ ژانویه ۲۰۱۸، ۰۴:۲۸ ب.ظ

شرح اصول کافی ملاصدرا کا تعارف


اصول کافی مکتب تشیع کی انتہائی اہم کتاب ہے ۔ یہ تمام معارف اسلامی کا مجموعہ ہے اصول دین سے لے کر فروع دین تک ۔ 


لیکن چونکہ ان روایات میں اسرار و حقائق پوشیدہ ہیں جو ایک ماہر حدیث شناس اور جو ائمہ علیہم السلام کے کلام سے انس رکھتا ہو استخراج کر سکتا ہے لذا اصول کافی پر شروحات لکھنے کی ضرورت پیش آئی ۔ 

سب سے پہلی شرح جو جامع ہے وہ ملاصدرا کی ہے اس سے پہلے جن حضرات کی شروحات کا ذکر ملتا ہے وہ ناقص بھی تھیں اور دسترس میں بھی نہیں رہیں ۔ 


ملاصدرا خود مکتب تشیع کی ایک اہم ترین شیخصیت ہیں ۔ خصوصا معارف الہیہ کی طرف توجہ اور ان میں موجود حقائق کے استخراج میں ایک بے نظیر شخصیت رہے ہیں (فلسفے کے مخالف حضرات ان کی شخصیت کو داغ دار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض غیر تحقیقی باتیں ان کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ 

ان کا جواب پھر کبھی مناسب موقع پر عرض ہو گا ۔ ) 


شرح اصول کافی ملاصدرا کی کچھ خصوصیات


1⃣ یہ کتاب ملاصدرا کی آخری کتاب ہے ۔ اس اعتبار سے یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ایک علمی شخصیت جب تک زندہ رہے اس کے علم میں تکامل جاری رہتا ہے اسی وجہ سے ایک محقق کی آخری کتاب کو کافی اہمیت دی جاتی ہے ۔ 


2⃣ ملاصدرا چونکہ برھانی اور عقلی علم میں خاصی مہارت رکھتے تھے لذٓا وہ احادیث جن میں عقلی اور برھانی مطالب ذکر ہوئے ہیں(مخصوصا باب توحید) ان کے بیان کردہ مطالب کافی عمیق اور دقیق ہیں ۔ 


3⃣ ملاصدرا کے بعد جس نے بھی اصول کافی کی شرح کی اس نے حتما اس کتاب سے  استفادہ   کیا ہے ۔ حتی علامہ مجلسی جو کہ روش کے اعتبار سے اخباری تھے اور فلاسفہ کی روش کے مخالف تھے لیکن جب اصول کافی کی شرح کی تو کافی حد تک اس کتاب سے استفادہ کیا۔

علامہ شعرانی اور دیگر محققان فرماتے ہیں کہ اکثر جگہ پر علامہ مجلسی نے یا تو ملاصدرا کی عبارات کو نقل کیا ہے یا اس کے مفہوم کو نقل کیا ہے اور ان محققین کا کہنا ہے ملاصدرا نے جہاں تک اصول کافی کی شرح کی وہاں تک تو علام مجلسی نے بھی اچھی شرح کی لیکن جہاں ملاصدرا کی شرح نہیں تھی وہاں اتنی شرح نہ کر سکے ۔ 

یہ ملاصدرا کی حدیثی کاوش کی ایک بے نظیر مثال ہے کہ جس کو علامہ مجلسی جیسی شخصیت نے بھی اکثر جگہ پر قبول کیا ۔ ملاصدرا کو قال بعض المحققین کے لقب سے یاد کیا۔ 


4⃣ رجالی تحقیق بھی اس شرح میں موجود ہے اور بعض جگہ پر جہاں ضرورت تھی تفصیلی طور پر رجالی بحث کو ذکر کیا ۔

 

یہ کتاب ناقص رہ گئی باب الحجہ کو کامل شرح نہ کر سکے کیونکہ اسی دوران ان کی وفات ہو گئی ۔


اس کے علاوہ بھی اس کتاب کے بارے میں کہنے کو مطالب باقی ہیں لیکن ابھی اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ 


اس کتاب کے مطالب کچھ سخت بھی ہیں وہ یا تو ملاصدرا کے مبانی پڑھنے کے بعد سمجھ میں آئیں گے یا اس کتاب کو درس کے طور پر کسی استاد سے پڑھا جائے ۔ 


 

اے کاش ہمارے مدارس اور حوزہ علمیہ میں حدیث خوانی اور فقہ الحدیث کی باقاعدہ کلاسیں ہوتیں تا کہ ہر طالب علم حدیث سے بھی آشنا ہوتا اور اس قسم کا جو علمی خزانہ ہے ان سے بھی آشنا ہوتا اور حدیث شناس بنتا ۔ 

 

اسلام کے دو اہم ترین منبع قرآن اور روایات معصومین ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کو تدریسی و کلاسی انداز میں نہیں پڑھا اور پڑھایا جاتا ۔ اور اگر کہیں یہ کام ہو بھی رہا ہے تو وہ شخصی اور انتہائی کم ہے ۔ 


اس کتاب کے ابتدائی حصے کو استاد سید جواد نقوی حفظہ اللہ نے انتہائی خوبصورتی سے تبیین کیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک وہ عروہ الوثقی کے  علمی قبرستان میں دفن ہے ۔ 

دعا ہے خداوند سے کہ اس عظیم علمی ذخیرہ کو علم کے پیاسوں کے لیے نشر کر دیں ۔



موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۸/۰۱/۳۱
syedzair abbas

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی