فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

کلام جدید 2

پنجشنبه, ۲۲ مارس ۲۰۱۸، ۰۲:۳۵ ق.ظ

کلام جدید کی اصطلاح  کا تاریخچہ 


تحقیق کے بعد جو چیز اب تک معلوم ہو سکی وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے کلام جدید کی تعبیر کو  غرب میں ویلیم جیمز نے تجربہ دینی کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے علم کلام جدید کا نام لیا  ۔ 


اور اسلامی دنیا میں سب سے پہلے سر سید احمد خان نے کلام جدید  کو استعمال کیا ، اس کا کہنا تھا کہ ایسے کلام جدید کو تاسیس  کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے جوانوں  کے ذھن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دے سکے ۔ اس کے بعد  جناب شبلی نعما نی جب تاریخ علم کلام میں کتاب لکھی تو اس کے دوسرے حصے کا نام کلام جدید رکھا  پس اس جہت سے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے کلام جدید کو شبلی نعمانی نے بیان کیا ہے ۔ 

اسی طرح ایران میں سب سے پہلے اس تعبیر کو شہید مطہری نے استعمال کی  اور مسائل جدید کو بیان کر کے کلام جدید کی بنیاد رکھی  ۔

فلسفہ دین(philosophy of Relegion) اور کلام جدید میں فرق 


معمولا جو بحثیں فلسفہ دین کے عنوان سے کی جاتی ہیں و کلام جدید کے عنوان میں بھی موجود ہوتی ہیں ، اسی شباہت کو دیکھتے ہوئے بعض قائل ہو گئے کہ فلسفہ دین و کلام جدید ایک ہی علم ہے لیکن حقیقت اس طرح نہیں ہے  ،


 یہ بات درست ہے کہ دونوں کی ابحاث میں شباہت موجود ہے لیکن مختلف جہات سے ان میں فرق موجود ہے : 


۱۔ روش کے اعتبار سے : 


فلسفہ دین  میں فقط عقلی روش کے ذریعہ دین کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے لیکن کلام جدید میں مختلف روشوں سے استفادہ  کیا جاتا ہے جیسا کہ پہلے تفصیل سے اس کو بیان کیا جا چکاہے ۔


۲۔ غایت اور ہدف کے اعتبار سے : 


فلسفہ دین میں ایک محقق کسی عقیدہ کو اساس و بنیاد بنائے بغیر دین کے بارے میں تحقیق کرتا ہے وہ حقیقت میں جاننا چاہتا ہے کہ آیا خدا نام کی کوئی حقیقت موجود ہے ، دین جن باتوں کا دعوی کرتا ہے آیا وہ اثبات کے قابل ہیں یا نہیں ؟ 

لیکن کلام جدید میں محقق پہلے کسی دین کا معتقد ہوتا ہے اور وہ  اس کی وضاحت یا دفاع کر رہا ہوتا ہے 


۳۔ فلسفہ دین میں  ممکن ہے بحث کرنے والا کسی بھی دین کا معتقد نہ ہو پھر بھی اس کو فیلسوف دین  کہہ سکتے ہیں لیکن کلام جدید میں اس طرح نہیں ہے اس میں بحث کرنے والا اگرچہ عقلی اعتبار سے دین کے بارے میں بحث کر رہا ہو لیکن وہ یہ کام دفاع کی خاطر کر رہا ہوتا ہے۔


4. فیلسوف دین ,دین سے باہر ہو کر دین کے بارے میں بحث کرتا ہے یعنی خود کو دین کا پابند نہیں کرتا لیکن متکلم دین کے اندر رہ کر دین کا عقلانی اعتبار سے دفاع کرتا ہے یعنی دین کا پابند ہو کر 



پس اس تفاوت کے ساتھ دین  کے بارے میں بحث کرنے والے تین گروہ بنتے ہیں :


الف) قدیم متکلمین


یہ قائل ہیں دین کے بتائے ہوے تمام قضیے سچے ہیں لہذا وہ اسی سچائی کا دفاع کرتا ہے


ب) جدید متکلمین


جب سے روشن فکری نے جنم لیا ہے اس وقت سے دین پر ایک اعتراض یہ کیا  جاتا رہا کہ دین کے بیان کردہ قضایا معقول نہیں ہیں یعنی بشری عقل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے پس قابل قبول نہیں ۔ جدید متکلمین اس کا جواب دیتے ہیں کہ دینی قضایا معقول ہیں 


ج) فیلسوف دین 


یہ قائل ہیں کہ دین میں تحقیق کرنے کے بعد جو دلیل سے ثابت ہوئے انکو لے لیں گے اور باقیوں کو رد  کر دیں پس ان کے نزدیک دین کے تمام قضایا سچے نہیں ہیں


طالب دعا :   سید زائر عباس 


موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۸/۰۳/۲۲
syedzair abbas

نظرات  (۱)

کلام جدید پر آپ کے دروس یوٹیوب پر ترتیب سے نہیں مل پائے۔ اگر تحریری شکل میں موجود ہیں تو اپ لوڈ کیجیے۔ جزاکم اللہ 

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی