فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

دین و دینداری کیسے وجود میں آئے ؟

جمعه, ۳۰ مارس ۲۰۱۸، ۰۸:۰۲ ب.ظ


#کلام_جدید


دین و دینداری کیسے وجود میں آئے ؟


منشا  دین 


اس عنوان میں اس سوال کا جواب دیا جائے گا کہ دین و دینداری کی علت کیا ہے ؟ 


سب سے پہلے منشا دین کی وضاحت کی جائے کہ اس سے کیا مراد ہے : 


آیت اللہ جوادی آملی نے اپنی کتاب دین شناسی میں دو یا تین تفسیریں بیان کی ہیں 

1.  دین کی علت کیا ہے 


 جب منشاء دین کہتےہیں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اصل دین کی علت کیا ہے؟ اس دین کو وجود میں  لانے والا جو ہے وہ کون ہے آیا  معاشرے نے دین کو  جنم دیا ہے یا مثلا خدا ہے یا معاشرے میں موجود قدرت مند طبقے نے دین کو خلق کیا ؟ خلاصہ یہ کہ دین کی پیدائش  کی علت کیا ہے؟


2.  دینداری کی علت کیا ہے 


 دو سرا معنی میں دینداری کی علت پوچھی جاتی ہے یعنی لوگ ، دیندار کیوں بنے ، دین کو قبول کرنے کی کیا وجہ بنی ؟ اس معنی میں سوال  کا جواب پہلے معنی میں موجود سوال کےجواب  سے فرق کرتا ہے اس معنی میں سوال کے جواب  میں کہا جاتا ہے کہ لوگ دین کی طرف اپنی نفساتی ضرورت کی وجہ سے گئے یا جواب میں کہیں گے کہ  دین کی طرف جانے میں کوئی اجتماعی پہلو پوشیدہ ہے یاجواب دینگے کہ دین کی طرف جانا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

معمولا جب منشا دین کی بحث کی گئی تو ان دو معنوں کی جدائی کا خیال نہ رکھا گیا ، لہذا کوئی اس عنوان میں دین کی علت بیان کرتا ہے اور کوئی دینداری کی علت کو ۔


پہلا نظریہ: خوف


 اس کے بہت سارے غربی مفکرین طرفدار ہیں۔


  اس نظریہ کو سب سے پہلے ایک شاعر رومی ٹیٹوس لوکر ڈیوس(۹۴ مسیح ) نے اپنے شعر میں بیان کیا تھا ۔ خوف کے  بارے میں کہتا ہے کہ خوف خداوں کی پہلی ماں ہے یعنی خوف نے خداوں کو جنم دیا ۔ 

اس کےکافی عرصہ کے  بعد غربی معاشرے کے اندر اس نظریہ کو پھر زندہ کیا گیا  ڈیوڈ ہیوم اور برٹنڈر رسل  اور زیگمنڈ فروئید جیسے غربی فلاسفر نے اس نظریہ کو قبول کیا ۔


فروئیڈ نے اسکو اس طریقے سےبیان کیا ،  انسان کے اندر چار قسم کے عوامل پائے جاتے ہیں جن سے وہ پریشان  ہوتا ہے:


1.    تمدن (civilization)


  انسان کے اندر بہت سارے تمایلات پائے جاتے ہیں بہت ساری خواہشات پائی جاتی ہیں اس کو انسان پورا کرنا چاہتا ہے لیکن تمدن چونکہ قوانین رکھتا ہے اپنے اندر اصول و ضوابط ، رسم و رواج  رکھتا ہے تو جو انسان جس تمدن میں اپنی زندگی گزار رہا ہو وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی کو بسر کرنے پر مجبور ہے پس  بعض انسان کے تمایلات و خواہشات، تمدن کی وجہ سے سرکوب ہوجاتے ہیں مثلا اسلامی معاشرہ و تمدن اسلامی  کے اپنے اصول و روشیں ہیں اور  انسان کے اند رمختلف خواہشات پائی جاتی ہیں اب جو اسلامی تمدن میں زندگی گزار رہا ہو اور اس کے اندر بہت سارے تمایلات ہوں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی ہر خواہش اسلامی تمدن میں پوری ہوجائے  گی؟ جواب نہ  میں ہے  کیونکہ انسان کی بعض خواہشات   اسلامی قوانین کے مخالف ہونگی اور اسلامی  قوانین کبھی اس کو اجازت نہیں دینگے کہ وہ قوانین کے مخالف خواہشات کو پورا کر سکے پس انسان کی وہ خواہشات ، تمدن کے قوانین کی وجہ سے سرکوب ہو جائیں گی لہذا انسان تمدن سے خوف کھاتا ہے 


2.  لوگ


 دوسری چیز جس سے انسان خوف کھاتا ہے  وہ لوگ ہیں کیونکہ جب وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تمدن کے  قوانین و اصول کو اپنےپاوں تلے روندے گا تو اس تمدن میں زندگی گزارنے والے دوسرے  لوگ اس کی مخالفت کریں گے، اس کے خلاف اقدام کریں گے لہذا وہ شخص اپنی خواہشات کی وجہ سے لوگوں سے خوف کھاتا ہے ۔

 ایک مثال سے اس مطلب کو  واضح کرتے ہیں  یہ مثال ہرگھرکے اندر موجود ہے  مثال جب بچہ جوان ہورہا ہوتا ہے  تو اس کے اندر بہت ساری خواہشات موجود ہوتی ہیں وہ ہر قسم کی اپنی آرزوں کو پورا کرنا چاہتا ہے لیکن والد دیکھ رہا ہوتا ہے اپنے تجربے کے ذریعے کہ یہ بچہ فلاں آرزو کے اندر غلط ہے،  اس کو نہیں ہونا چاہیے  ورنہ یہ خراب ہوجائے گا،  یہ بگڑ جائے گا،  اس کی زندگی خراب ہوجائے گی توباپ  بیٹے کو روکتا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیٹے کے اندر  باپ کی نسبت خوف  پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح باقی لوگوں کی نسبت بھی خوف ایجاد ہو جاتا ہے ۔ 


3.  جہان کی آفات  


انسان کے اندر خوف ، جہان کی آفات کی نسبت بھی پیدا ہو تا ہے مثلا زلزلہ ، طوفان کا آنا ، بیماری میں مبتلا ہونا وغیرہ ۔ یہ خوف ، اہمیت کا حامل ہے اور یہی ہماری بحث میں مدنظر ہے ۔ 


4.  موت


چوتھی چیز جس  سے خوف کھاتا  ہے وہ موت ہے ۔


فلسفہ و کلام اسلامی, [30.03.18 19:25]

اب فروئیڈ کہتا ہے کہ انسان نے پہلے دو خوف کے عوامل سے بچنے کا طریقہ نکال لیا  مثلا تمدن اور لوگوں سے  دشمنی اور کینہ  کے ذریعے ، تمدن کے خلاف بغاوت کر کے   خوف کو ختم کرتا ہے ، یا اپنی خواہشات کو محدود کر لیتا ہے ۔

 لیکن موت اور جہان میں موجود آفات کی نسبت خوف کو ختم کرنے کا طریقہ نکال نہ پایا ، طوفان ، زلزلہ وغیرہ سے کیسے بچا جائے اس کا راہ حل نہیں نکال پایا تو ابتدائی انسان قائل ہو گیا کہ اس کائنات میں بعض طاقتیں موجود ہیں جو ان کی دسترس سے باہر ہیں وہ محبت بھی رکھتی ہے اور غضب بھی اور جب وہ غضبناک ہوتی ہیں تو آفات نازل کرتی ہیں پس ابتدائی انسان نے ان کو راضی کرنے کے لیے کچھ اعمال کو انجام دینا شروع کردیا ۔اسی طرح دین وجود میں آیا ہے کیونکہ دین میں دو عناصر اساسی ہوتے ہیں ایک  میٹافیزیک کا اعتقاد رکھنا  اور دوسرا آداب و رسوم کا ہونا ۔ 


نظریے کا رد : 


1.  ان غربی مفکرین نے پہلے سے یہ عقیدہ بنایا ہوا ہے کہ دین اوراس کے احکامات ، خرافات ہیں ، اس میں کسی قسم کی عقلی اور فطری پہلو نہیں پایا جاتا لہذا دین کی علت تلاش کرنے لگے اور اس قسم کے نظریے سامنے آئے ۔ صحیح نظریے کی وضاحت میں بیان ہو گا کہ دین ، انسان کی فطری ضرورت ہے ، انسان کی فطرت ، دین کا اقتضا کرتی ہے ۔ 


2.  ممکن ہے کہ بعض ادیان اسی خوف کی بنیاد پر وجود میں آئے ہوں لیکن اس معیار کو عمومیت دینا درست نہیں ہے یعنی ایک یا دو مورد کو دیکھ کر سب پر حکم لگانا غلط ہے ۔ حتی بعض  غربی مفکرین نے کہا کہ تحقیق کے بعد ایک مورد بھی ایسا نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ دین کا سرچشمہ خوف ہے ۔ 


3.  ضروری نہیں کہ خوف ، خدا کے مفہوم کے خلق کی علت کہلائے بلکہ خوف ، خدا  کی طرف متوجہ ہونے کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے ۔ مثلا  قرآن میں ذکر ہوا ہے : فَإِذا رَکِبوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصینَ لَهُ الدّینَ فَلَمّا نَجّاهُم إِلَى البَرِّ إِذا هُم یُشرِکونَ جب انسان سمندر میں پھنس جائے تو اس کی ہر چیز کی نسبت امید ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے دل میں ایک امید باقی ہوتی ہے وہی انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہے ۔ 


طالب دعا :      سید زائر عباس 


موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۸/۰۳/۳۰
syedzair abbas

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی