فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفہ کی ابجد ۸

شنبه, ۱۰ فوریه ۲۰۱۸، ۱۲:۴۲ ق.ظ

فلسفہ کیوں ضروری ہے؟


تحریر: عباس حسینی


http://abbashussaini.blogfa.com/post/60


فلسفہ(Philosophy) بنیادی ترین علوم میں سے ہے جسے تمام علوم کی ماں (Mother of the Sciences) بھی کہا جاتا ہے۔ فلسفہ اس وسیع  کائنات کی حقیقت کے حوالے سے بنیادی ترین سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کا نام ہے۔ اگرچہ فلسفے کابنیادی معنی علم اور حکمت سے دوستی کے ہے اور فلسفی اپنی کاوش کے مطابق اس کائنات کے سربستہ  رازوں سے پردے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، اور فلسفی کبھی بھی دعوی نہیں کرتا کہ اس نے کائنات کے تمام  رموز سے آشنائی حاصل کر لی ہے۔ بس ایک کوشش ہے، اور سعی مسلسل۔

البتہ بعض وہ لوگ جو فلسفے سے آشنائی نہیں رکھتے، اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے فلسفے کی مخالفت میں سر اٹھاتے ہیں اور اس کی اہمیت سے انکاری ہوتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ منطق اور فلسفے کا تعلق ، انسانی عقل سے اور اس نعمت سے استفادے سے ہے۔ قرآن کریم نے بار بار عقل سے کام لینے کی تاکید کی ہےاور احادیث نبوی میں عقل انسانی کو رسولِ باطنی کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے میں عقل کے مخالف صرف وہی ہو سکتے ہیں، جو قرآن و حدیث سے آشنائی نہیں رکھتے۔ اور پھر منطق اور فلسفے کا رد یا انکار منطق اور فلسفہ پڑھے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں تو آشنائی کی خاطر، تاکہ اسے رد کیا جا سکے۔ اور پھر عقل انسانی کے وہ سانچےاور قاعدے جو خالق لم یزل نے تیار کیے ہیں، ان سے فرار ممکن  ہی نہیں۔ لہذا نہی منطقی قیاس، برہان، استقراء  وغیرہ سے ہی کام لینا پڑے گا۔ یہ تو آپ نے فلسفے کی اہمیت کو برملا کیا، نہ کہ اسے رد کیا۔

بہر حال یہاں ہم فلسفے کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے چند نکات بیان کرتے ہیں:

۱۔ عام طور پر انسان اس مادی دنیا میں لذت کے پیچھے بھاگتا ہے۔ ہر کام میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ لیکن مادی فائدے کی بھی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں جب تک وہ انسان کے لیے خوشحالی اور سکون نہ لائے۔ کاغذکے چند ٹکڑے جنہیں ہم پیسوں کا نام دیتے ہیں اگر انسان کی خوشحالی کا باعث نہ ہوتو ان کی کوئی حیثیت نہیں۔

انسان فطرتا متجسس ہے۔ کسی بھی چیز کے حوالے سے آگاہی کی جستجو اور تلاش انسان کی سرشت میں ہے۔ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کیسے ہے؟ وغیرہ کا جواب تلاش کرتا رہتا ہے۔ وہ لذت جو ایک علمی گتھی کو سلجھانے کے بعد کسی محقق کو ملتی ہے اس کی مثال اور نظیر پوری  کائنات میں نہیں ملتی۔ پس فلسفہ چونکہ حقیقت کی تلاش کا نام ہے۔ واقع کے بارے میں تفکر اور تامل کا نام ہے، اس سے حاصل ہونے والی معنوی لذت کسی بھی دوسرے علم سے حاصل ہونے والی لذت سے کسی طور کم نہیں۔

۲۔ انسان کی تمام تر آئیڈیولوجی(Ideology) اس کی جہان بینی(World View) پر متوقف ہے۔  کائنات میں مجھے کیا کچھ کرنا چاہیے، کیا کچھ نہیں کرنا چاہیے اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ انسان اس کائنات کی حقیقت کے متعلق کیا موقف رکھتا ہے۔ کیا اس کے نزدیک کائنات صرف مادی ہے، یا ما ورائے مادہ بھی کچھ حقیقتوں پر ایمان رکھتا ہے؟ یہ بات اس کے تمام تر افعال پر اثر انداز ہے۔ فلسفہ اس حوالے سے فیصلہ کن ہےاور انسان کی جہان بینی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پس فلسفہ، جہان بینی پر، اور جہان بینی، آئیڈیولوجی پر اثر انداز ہے۔

بطور مثال امریکہ کا موجودہ آئین بہت حد تک ، ایک فلسفی  جان لاک کے افکار کا خلاصہ ہے۔ انقلاب فرانس 1789  کے حوالے سے روسو کے اثرات کے سب ہی قائل ہیں۔ اسی طرح کمیونزم ہو یا فاشزم، نازی ازم ہو یا نظام سرمایہ داری یا کوئی بھی سیاسی واقتصادی، اجتماعی وتعلیمی نظام،  اس کی پشت پر ایک فلسفی فکر اور نظام موجود ہوتا ہے۔ کسی بھی سیاسی، اقتصادی،۔۔ ۔ نظام کو تبدیل کرنےسے پہلے اس معاشرے پر حاکم فلسفی فکر اور کائنات کے حوالے سے اس کےنظریے کو تبدیل کرنا  ضروری اور لازم ہے۔

۳۔ اسی طرح کسی بھی تہذیب یا تمدن کی بقا کی ضمانت اس کے پیچھے موجود وہ فکری نظام ہے جو اس پر حاکم ہے۔ جب تک وہ فکر تروتازہ اور شاداب ہے، وہ تہذیب، وہ تمدن سرسبز ہے، زندہ ہے، وہ ترقی کر رہا ہوتا ہے۔ یہ وہی فکری نظام ہے جو اس معاشرے کی تمام اکائیوں کو وحدت بخشتا ہے۔ اس معاشرے میں توازن برقرار رکھتا ہے۔ اسی طرح بالعکس، اگر کسی بھی تہذیب یا تمدن پر حاکم فکری نظام بوسیدہ ہوجائے، وہ فکری نظام عصری تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو تو اس تہذیب کی پوری عمارت ایک ساتھ گر جاتی ہے۔ اور یہ فلسفہ ہی ہے جو کسی بھی فکری نظام کی آبیاری کرتا ہے۔ حقیقت کو خرافات سے الگ کرتا ہے۔ جدید شبہات اور سوالات کے جوابات ڈھونڈتا ہے اور عصری تقاضوں کے مطابق چلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ 

۴۔ سائنس اور جدید علوم ہمیشہ فلسفے کے محتاج ہیں۔ تمام علوم کے موضوعات کو فلسفہ ثابت کرتا ہے۔ فلسفہ عمومی ترین مفہوم جو اس کائنات میں ہے، یعنی وجود سے بحث کرتا ہے۔ البتہ بحث صرف مفہومی نہیں، اصل بحث،  وجود کی حقیقت سے ہے۔  مثلا فیزیکس میں مادے کے وجود کو یقینی لیا جاتا ہے اور پھر اس

موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۸/۰۲/۱۰
syedzair abbas

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی