فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

فلسفه و کلام اسلامی

فلسفی اور کلامی مطالب کا مرکز

کلام جدید(Modren Theology)

جمعه, ۱۶ مارس ۲۰۱۸، ۰۷:۰۲ ب.ظ

کلام جدید(Modren Theology)

 

مقدماتی بحث

اس میں چند سوالوں کے جواب دیئے جائیں گے

1.  کلام و جدید کا مفہوم کیا ھے 

2.  اس کا کلام قدیم سے کیا رابطہ ہے

3.  آیا ہم کلام کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں  یعنی کلام جدید جانی کلام جدید اور کلامی قدیم کی طرف  یا نہ

4.  آیا جدید کلام کی صفت ہے یا مسائل کی

 اگر کلام کی صفت ہو تو اس کا مطلب ہے کہ کلام کی ایک قسم ، کلام جدید ہے۔ اور اگر جدید،  مسائل کی صفت ہو تو اس کا مطلب ہے کہ کلام کی حقیقت اور ماہیت ایک ہی ہے لیکن اس کے مسائل جدید اور نئے ہوتے رہتے ہیں

ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے علم کلام کی تاریخ کو بیان کرنا ضروری ھے کیونکہ اسی بحث کر سوالوں کے جواب متو قف ہیں

 تعریف علم کلام


اس بات کی طرف توجہ رہے تو یہاں تعریف کے بارے میں تفصیلی گفتگو  مد نظر نہیں ہے بلکہ تحقیقی نظر کو بیان کیا جائے گا

اب تک جتنی تعریفیں کی گئی ہیں ان میں سے سب سے بہتر شہید مطہری کی تعریف ہے

علم کلام ایسا علم ہے جس میں عقائددینی کے بارے میں بحث کی جاتی ہے ، اس  کی وضاحت کی جاتی ہیں ، ان عقائد کے بارے میں استدلال کیا جاتا ہے اور ان عقائد کا دفاع کرتا ہے

 کیوں کہ اس تعریف میں علم کلام کے موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اسی طرح علم کلام کی غایت اور فائدہ کو بھی ذکر کیا ہےیہ  تعریف باقی  تعریفون کی نسبت جامع ہے

اس تعریف سے متکلم کا وظیفہ اور ذمہ داری بھی معلوم ہو جاتی ہے


علم کلام کی استدلالی روش


اگر تعریف کو مدنظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ علم کلام کی کوئی خاص روش نہیں ہے  کیونکه دینی عقائد کو وضاحت کرنے کے لیے  ہر مسئلے کے موضوع کو دیکھا جائے گا

اگر ایک دینی  مسئلے کا موضوع   فقط نقلی حیثیت رکھتا ہوگا کو اس کو نقلی روش  کے تحت بیان کیا جائے گا یعنی اس مسئلے کی وضاحت کے لیے فقط آیت اور روایت کا سہارا لیا جائے گا  قیامت کے  جزوی مسائل مثلا صراط کی خصوصیات  جنت کی حقیقت وغیرہ 

اگر ایک مسلے کا موضوع عقلی حیثیت رکھتا ہوگا تو اس کی وضاحت کے لیے عقلی روش  کو استعمال کیا جائے گا

یعنی عقلی برہان لایا جائے گا مثلا وجود خدا کا اثبات فقط عقلی دلیل سے ممکن ہے وغیرہ وغیره


عقائد کا دفاع کرنا بھی  متکلم کی ذمہ داری ہے لہٰذا وہ اپنے مخاطب کو مدنظر رکھ کر استدلال لائے گا 

 کبھی  عقلی روش کو اپنائے گا اور کبھی جدلی روش کو وغیرہ 

پس علم کلام کے لیے کوئی خاص روش معین نہیں بلکہ وہ مختلف  روشوں  سے استفادہ کرتا ہے اس کے مقابل میں فلسفہ فقط ایک  روش رکھتا ہے اور وہ عقلی ہے اس کے علاوہ کوئی روش اختیار نہیں کرسکتا ورنہ فلسفہ ہونے سے خارج ہو جائے گا


اس بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علم کلام کا موضوع دینی عقائد ہیں اور اسکی روش معین نہیں بلکہ مختلف روشوں سے استفادہ کر سکتا ہے اور علم کلام کا ہدف اور غایت  دینی عقائد کا دفاع کرنا ہے 

اب اس بحث کے تناظر میں دیکھتے ہیں کہ کلام جدید کی حقیقت کیا ہے آیا یہ اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے ایک الگ علم ہے یا نہں بلکہ علم کلام ایک ہی ہے اس کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس اعتبار سے یہ جدید کہلاتا ہے 


اس میں دو نظریے ہیں


1. کلام جدید ایک الگ علم ہے اس کا کلام قدیم سے کوئی تعلق نہیں ایک علم میں اس کا موضوع مسائل اور استدلال کی روش اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہی ایک علم کی تاسیس میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں

پہلے نظریے میں یہ دعوی  کیا گیا ہے کہ کلام  جدید ایک الگ علم ہے کیوں کے اس کے موضوعات میں اضافہ ہوگیا ہے مسائل جدید ہوگئے ہیں اسی وجہ سے اس استدلالی روش بھی بدل گئی ہے پہلے علم کلام کی روش عقلی نقلی اور جدلی تھی لیکن تجربی    اور شہودی نہیں تھی کیونکہ پہلے علم کلام میں تجربہ دینی جیسا مسالہ موجود نہیں تھا اب موجود ہے اس کو ثابت یا رد کرنے کے لیے تجربی روش  کی ضرورت ہے اسی طرح شہودی روش بھی ضروری ہے پس کلام جدید روش کے اعتبار سے کلام قدیم سے جدا ہو جاتا ہے 

پہلے علم کلام میں فقط ان مسائل سے بحث کرتے تھے جو واقع کی طرف ناظر تھے مثلا وجود خدا نبوت وغیرہ اسی کی وضاحت کرتے اور دفاع کرتے تھے لیکن آج ایسے مسائل بھی داخل ہوگئے ہیں جو اقدار سے تعلق رکھتے ہیں اخلاقی اور حقوقی مسائل۔ پس مسائل کے اعتبار سے بھی کلام قدیم سے جدا ہے

جب ایک علم کا موضوع مسائل اور استدلالی روس میں فرق آجائے تو وہ الگ علم کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے نہ کہ قدیم علم کا تسلسل ہوتا ہے


2. دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کلام جدید نہیں ہوابلکہ مسائل میں اضافہ ہوا ہے مسائل کے اعتبار سے جدید ہے پس کلام جدید کی تعبیر درست نہیں ہے بلکہ مسائل جدید کلامی کی تعبیر درست ہے 

اگر علم کلام کی تعریف کو مد نظر رکھے اور دقت کرو تو مسئلہ واضح اور روشن ہوتا ہے کیوں کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ علم کلام کا موضوع دینی عقائد  ہیں اور کلام جدید میں اٹھنے والے تمام مسائل کا تعلق بھی دینی عقائد سے ہے  ممکن ہے مستقیم دینی عقائد سے مرتبط ہو یا ایک واسطے سے دینی عقائد سے مرتبط ہوں 

اسی طرح علم کلام کی روس کے بارے میں کہا تھا کہ اسکی کوئی خاص رویش نہیں ہے بلکہ مسائل کی نوعیت اعتبار سے اس میں فرق آتا رہے گا اگر مسائل کے اضافے سے روش میں بھی اضافہ ہوتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ علم کلام مختلف  روش رکھنے والا علم ہے ہاں اگر فلسفے کی طرح علم کلام کی بھی ایک معین اور خاص  روش ہوتی  نئی روش گانے کے بعد کہا جاسکتا تھا کہ علم  روش کے اعتبار سے تبدیلی آگئی ہے  جبکہ علم کلام میں ایسا نہیں ہے

علم کلام کی ذمہ داری کے اعتبار سے ہے بیان کیا تھا کہ علم کلام دینی عقائد کا دفاع کرتا ہے تو کلام جدید میں بھی اسی وظیفے کو ادا کیا جاتا ہے اس میں متکلم کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایک اعتراض کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ایسی روش کو اپنائے کہ وہ  اعتراض برطرف ہو جائے وظیفہ اور ذمہ داری کے اعتبار سے بھی ایک جیسے ہیں

کو وہ جو کہا گیا سے پہلے علم کلام میں ایسے مسائل جو اقدار سے متعلق ہیں سے بحث نہیں ہوتی تھی لیکن اب ان پر بہت توجہ دی جاتی ہے تو اس کا جواب واضح ہے کہ متکلمین نے اپنی کتابوں میں حسن اور قبح عقلی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر  بیان کیا ہے ان مسائل کا تعلق اقدار سے متعلق مسائل سے تھے

ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے اخلاقی اور حقوقی جیسے مسائل سے بہت کم   بحث ھوتی تھی لیکن اب زیادہ توجہ کا مرکز بن گئے  ہیں  



موافقین ۰ مخالفین ۰ ۱۸/۰۳/۱۶
syedzair abbas

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی